Dirilis ErtugrulUyanis Buyuk Selcuklu

مقدس امانتیں کیا ہیں؟

پچھلے کئی سالوں مقدس امانتیں میں ترکی کے کچھ ڈرامے پاکستان میں بہت مقبول ہوئے ہیں. جن میں دریلش ارتغرل سرفہرست ہے۔ اس کے علاؤہ کورلس عثمان اور دی گریٹ سلجوق یعنی نظام عالم بھی کافی شہرت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں. ان ڈراموں میں شروع سے ہی مقدس امانتوں یا مقدس تبرکات کا ذکر سنتے آرہے ہیں. لیکن کیا آپ کو جانتے ہیں کی یہ مقدس امانتیں ہے کیا؟ وہ کونسی خوبیاں تھی یا ان امانتیں اور تبرکات میں ایسی کیا خاص پہلو تھے. کہ جسکی وجہ سے مختلف مکاتب سے تعلق رکھنے والے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر حاصل کرنا چاہتے تھے؟

سلطان ملک شاہ

سلطان ملک شاہ کے دور میں باطنی اور قلعہ کوول کے باسی ان مقدس امانتوں کو حاصل کرنے کی جستجو میں لگے تھے۔ یہاں تک کہ یہ امانتیں یا تبرکات باطنیوں کے ہاتھ لگیں جسے غیرمسلم حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے. لیکن مسلمان ان سے یہ مقدس امانتیں واپس لینے میں کامیاب ہوئے۔

ان تبرکات کو سب سے پہلے وقت کے ولی شیخ احمد یوسوی ؒ نے حاصل کیا، شیخ صاحب درویشوں (سفید داڑھی والے) کے شیخ اول تھے۔ ترکی میں سب سے پہلی روحانی درسگاہ انہی کی کوششوں سے بنی۔ آپ نے وہ تبرکات شیخ ابن العربی کے حوالے کی۔ ابن العربیؒ نے اسکو کئی سال اپنے پاس سمبھال کر رکھا. لیکن پھر اس کے بعد وہ مقدس امانتیں سلطنت عثمانیہ کے بانی ارتغل کے حوالے کی۔

استاد پیٹروچو

مخالفین کے استاد اعظم استاد پیٹروچو نے ان امانتوں کے حصول کیلئے اپنی جان تک قربان کر دی۔ ارتغرل نے وہ امانتیں پوری زندگی اپنے پاس محفوظ رکھی اور آخر میں وہ امانتیں اپنے شیخ کے شاگرد شیخ ادابالا کے حوالے کی۔ شیخ صاحب نے وہ امانتیں سلطان اول عثمان غازی کے حوالے کی۔ عثمان غازی نے ان کی حفاظت میں کئی جانیں قربان کی۔ انہیں اپنے قبیلے تک کو کچھ عرصہ کیلئے چھوڑنا پڑا لیکن امانتوں کی حفاظت کی۔

حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا

ایک راے یہ بھی ہے کہ امانتوں کے اس صندوقچی میں حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی استعمال شدہ تبرکات ہیں۔ یہ تبرکات مسلمان معاشرے اور سلطنت کے لئے انتہائی اہم تھی۔ اسی کا ذکر نظام عالم یعنی دی گریٹ سلجوق سیریل میں کیا گیا ہے۔ جب یہ امانتیں تھوڑی دیر کے لئے باطنی وں اور صلیبی طبقے کے ہاتھ لگتی ہیں. اور حسن بن صباح کے اکسانے پر مظاہرین احتجاج کرتے ہیں. کہ یہ مقدس تبرکات کسی صورت دشمنوں کے پاس نہیں رہنی چاہیے۔ اور اس بات کی طرف اِشارہ بھی ہےکہ ان میں حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے متعلق مقدسات ہیں۔ اور ایسی مقدس تبرکات کو کسی کافر کا ہاتھ لگنا مسلم کیوں برداشت کرے گا؟.

قسطنطنیہ

اس کے علاؤہ دوسری رائے یہ بھی ہے کہ اس صندوقچی میں موجود حضرت خضر کی قمیص یعنی کرتا تھا جس کو کوئی بھی پہن کر حملہ آور ہوتا تو اس کو فتح نصیب ہوتی۔اور کہا یہ جاتا ہےکہ قسطنطنیہ کے یعنی موجود استنبول کے فاتح اول سلطان محمد فاتح نے. یہ قمیص پہن کر حملے میں فتح حاصل کی تھی ۔ بہت سے مسلم فاتح بھی یہ قمیص پہن کر حملہ آور ہوتے تو اللہ پاک اس کی وجہ ان کو فتح یاب کرتے۔

عثمان غازی

صلیبیوں کو جب پتہ چلا کہ یہ کرتا پہن کر جو بھی حملہ کرتا ہے فتح اسے ہی ملتی ہے تو وہ یہ معلوم کرناچاہتےتھے. کہ آخر وہ کونسی چیز ہے جس سے اس کرتے کو اتنی اہمیت حاصل ہے۔ اس کے حصول کیلئے بہت کوشش کی باقاعدہ ایک جماعت تشکیل دی لیکن وہ ناکام ہوگئی ۔ آخر کار قلعہ کولوچائیسار کے گورنر نے وہ صندوقچی حاصل کرلی۔ عثمان غازی جس نے اس کو پانے کیلئے ہر رکاؤٹ کو عبور کیا یہاں تک کہ اپنا قبیلہ بھی انکے خلاف ہوا۔ بہت سی مشکلات سامنے آئی. لیکن وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے اور وہ امانتوں کا صندوق اپنے قبضہ میں لے لیا۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button

Adblock Detected

Please Turn off Your Adblocker. We respect your privacy and time. We only display relevant and good legal ads. So please cooperate with us. We are thankful to you!