بامسے بیرک

گیارویں صدی کے آواخر میں ترکوں کے عظیم سالار بامسے بیرک ایک خانہ بدوش قبیلہ میں پیدا ہوئے لیکن بدقستی سے پچپن ہی میں انکے والدین منگولوں کے حملے میں شہید ہوئے تو آپ کی تربیت قائی قبیلہ کے سردار کی بیوی حائمہ خانم نے کی۔ آپ پچپن ہی سے ارتغل غازی کے سچے دوست اور ہمدر تھے، دل کے صاف تھے اور نہایت ہی بہادر سپہ سالار تھے۔ آپ دوران جنگ دو تلواروں کا استعمال کرتے اور ہر وقت لڑائی کے مشتاق ہوتے۔
خصوصی فورس
ارتغل کے ساتھ سینکڑوں غزوات میں شریک ہوئے۔ جس وقت ارتغل نے صلیبی شرپسند جو ہر جگہ فتنہ وفساد میں پیش پیش رہتے تھے، سے لڑنے اور انہیں ختم کرنے کیلئے ایک خصوصی فورس تشکیل دی تو ان کا سربراہ بامسے الپ مقرر کیا۔ آپ نے ان کے ساتھ کئی معرکے لڑے اور اپنی خداداد صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے ان کا قلع قمع کردیا۔
سلطنت عثمانیہ کے سلطان اول
ارتغل غازی کے بیٹے اور سلطنت عثمانیہ کے سلطان اول عثمان کیساتھ بھی آپ نے کئی جنگیں لڑی۔ آپ نے عثمان کی صرف تربیت نہیں کی بلکہ انکا ہر موڑ پر ساتھ دیا۔ جس وقت ارتغل کے بھائی دندار قبیلہ کے نائب سردار مقرر ہوئے. تو پورا قبیلہ کچھ غلط فہمیوں کی بناء پر عثمان کے خلاف ہوا. بامسے بیرک نے اس مشکل وقت میں عثمان کا ساتھ دیا. اور بڑی دوراندیشی کیساتھ عثمان غازی کو اس مشکل گھڑی سے نکالنے میں کامیاب ہوئے۔ فتنوں کا گڑھ قلعہ کلوچائیسار کو جب محاصرے میں لیا گیا.
عثمان کے شانہ بشانہ
تو آپ عثمان کے شانہ بشانہ تھے اور اپنی خاص فورس کیساتھ قلعہ کے دروازے پر جاکر حملہ کیا. جس سے عثمان نے قلع فتح کیا۔
بامسے نہایت ہی دلیر اور زندہ دل شخصیت کے مالک تھے۔ بہادر جنگجو ہونے کے باوجود آپ کا دل نہایت ہی نرم تھا۔ کسی کو ادنی تکلیف دینا گوارا نہ تھا۔ آپ نے پوری زندگی اپنی تلوار سے علم اسلام کی حفاظت میں گزاری۔ آخر کار بارہویں صدی کے شروع ہی میں دنیائے اسلام اس عظیم شخصیت سے ہمیشہ کیلئے محروم ہوگئی۔ بامسے بیرک پر ہزاروں رحمتیں ہوں۔
تحریر : وسیم اللہ عفی عنہ
2 Comments