Dirilis Ertugrul

ڈرامہ ” دیریلس ارتغل ” اور ” کرولوس عثمان ” کے اثرات

ڈرامہ ” دیریلس ارتغل ” اور ” کرولوس عثمان ” کے اثرات

ترکی کے دیریلس ارتغل چھوٹے سے گاوں ریوا سے10 دسمبر 2014 کو شروع ھونے والے ایک ڈرامے کے بھاگتے گھوڑوں کے سموں سے نکلتی چنگاریوں سے بھڑکی آگ اور ان گھوڑوں پر سوار شجاع جنگجووں کی تلواروں کی کھنک اور اللہ اکبر کی صداوں کی فلک شگاف گھن گرج ایسی بلند ھوئی کہ دنیا بھر کے آسمان پر اسلام کامدھم پڑتا سورج سوا نیزے پر آگیا۔جی ھاں مہمت بزداگ سے شروع ھونے والا ڈرامہ “دیریلس .ارتغل”کی کشش آھستہ آھستہ اتنی بڑھی

گاوں میں تیار ھونے والے ڈرامے

کہ جس نے ایک بار بھی اسے دیکھا اس کے سحر میں مبتلاء ھو گیا۔ترکی کے ایک گاوں میں تیار ھونے والے ڈرامے نے پوری دنیا کو اپنی پسندیدگی کے شعلوں کی لپیٹ میں لے لیا۔بڑی بڑی دیوھیکل فلم اور ڈرامہ انڈسٹریز کے کئی سالوں سے قائم بت جو عرصہء دراز سے لوگوں کے دل و دماغ پر حکومت کر رھے تھے ارتغل کی آندھی کے جھکڑوں سے یکا یک منہدم ھونا شروع ھو گئے۔اور ہر طرف ارتغل ارتغل کا چرچا ھونے لگا۔

ڈرامہ اور فلم انڈسٹری کا مستقبل

ایمان کی بجھتی ھوئی اور مدہم پڑتی لو پھر سے بھڑک اٹھی۔کم از کم 150 ملکوں کی ڈرامہ اور فلم انڈسٹری کا مستقبل داو پر لگ گیا۔تہذیب و اخلاق سے گری جھوٹی سچی غیر اخلاقی افسانوی کہانیوں پر مبنی فلموں اور ڈراموں کے ھیرو یکا یک ڈراونے خواب کی طرح نظر آنے لگے۔خود ساختہ انڈسٹری کے بت پاش پاش ھو گئے۔

نوجوانوں میں اپنے اسلاف کی تہذیب اور اپنے اسلامی تمدن کی روایات پھر سے جڑیں پکڑنے لگیں۔پھر سےچہرے اسلامی اقدار کی سوچ سے جگمگانے لگے۔دل پھر سے ایمان کے نور سے لبریز ھونے لگے۔بھولے سبق یاد آنے لگے چہرے خوبصورت ڈاڑھیوں سے سجنے لگے۔

اسلام اپنی درست سمت کی طرف بڑھنے لگا

ہر طرف مسلمانوں کی اقدار کے چرچے ھونے لگے۔اسلام اپنی درست سمت کی طرف بڑھنے لگا۔روشن چاند چمکنے لگا۔نور کا اجالا ھر طرف پھیلنے لگا۔قرآن و سنت کے بھولے حوالے پھر سے دہرائے جانے لگے۔ اللہ اکبر ، ماشاللہ ‘ جزاک اللہ اور انشاء اللہ کے الفاظ ایک مرتبہ پھر عام بول چال میں استعمال ھونے لگے۔خوفزدہ قوتوں نے اپنے اپنے ملکوں میں ڈرامے پر پابندیاں عائد کردیں حتکہ کچھ عرب ممالک نے بھی اس ڈرامے پر پابندی لگادی یہ کہہ کر کہ اس میں بغاوت کے عناصر کو پرموٹ کیا گیا ھے۔لیکن بھلا ھو نیٹ کا کہ پیغام رکنے کی بجائے تیزی سے پھیلنے لگا۔دھواں بلند ھونے لگا اور اس سارے پیغام کوشش اور محنت کے پیچھے ایک شخص کی اپنی تہذیب سے دیوانگی کی حد تک محبت تھی جس نے اسے اس مشکل کام پر اکسایا۔

مہمت بزداگ

میں اپنی محبتوں ‘ عقیدتوں اور چاھتوں کے پھولوں کے وہ نظرانےکہاں سے لاوں کس موسم میں وہ پھول کھلیں گے. جو میں مہمت بزداگ کو اپنے عقیدت بھرے آنسووں کے ساتھ پیش کر سکوں۔میرے پاس اظہار کے وہ الفاظ نہیں جو ایک مسلمان ماں ایک مسلمان بہن اور بیٹی. اس کے قدموں میں پیش کر سکے سوائے یہ کہنے کے کہ مہمت بزداگ ایک شخص نہیں. ایک کارواں ھے جو اپنے پہلو میں اپنی ٹیم کے ایک ایک کارکن کو ساتھ لے کر چلتا ھے۔قافلہ بڑھتا جا رھا ھے ناظرین بھی ان کی ٹیم کا حصہ بن گئے ہیں

۔آج گھر گھر میں مہمت بزداگ اپنے پورے پیغام کے ساتھ دھرنا دئیے بیٹھے ہیں. اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رھے اور مجھے یقین ھے آنے والے وقت میں ھر مسلمان نے اپنے ھاتھ میں مہمت بزداگ کے پیغام کا علم بلند کیا ھوگا۔اللہ آپکی عمراور آپکے کام میں برکت ڈالے اور آپکی ٹیم آپکی راھنمائی میں اسی طرح دلوں کو گرماتی رھے۔
نازنین مقیت
سدا سلامت رہیں۔آمین

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Check Also
Close
Back to top button

Adblock Detected

Please Turn off Your Adblocker. We respect your privacy and time. We only display relevant and good legal ads. So please cooperate with us. We are thankful to you!